Thursday, December 31, 2009
Wednesday, December 23, 2009
Balloon boy parents get jail time, tough probation
Balloon boy parents get jail time, tough probation
- FORT COLLINS, Colo. – The parents who carried out the balloon boy hoax were sentenced to jail Wednesday and given strict probation conditions that forbid them from earning any money from the spectacle for four years.
Richard Heene was sentenced to 90 days in jail, including 60 days of work release that will let him pursue his job as a construction contractor while serving his time. His wife, Mayumi, was sentenced to 20 days in jail.
Richard Heene choked back tears as he said he was sorry, especially to the rescue workers who chased down false reports that his 6-year-old son had floated away in a balloon on Oct. 15. It was a stunt designed to generate attention for a reality TV show.
"I do want to reiterate that I'm very, very sorry. And I want to apologize to all the rescue workers out there, and the people that got involved in the community. That's it," said Richard Heene, whose wife did not speak at the hearing.
Larimer County District Judge Stephen Schapanski then ordered Heene to begin a 30-day jail term on Jan. 11, delaying the start of the sentence for two weeks so he can spend the holidays with his family. Schapanski allowed Heene to serve the remaining 60 days of his jail term under work release, meaning he can work during the day but spend his nights in jail.
The Heenes' probation will be revoked if they are found to be profiting from any book, TV, movie or other deals related to the stunt.
"This, in simple terms, was an elaborate hoax that was devised by Mr. and Mrs. Heene," the judge said.
The Heenes pleaded guilty to charges that they carried out the balloon hoax, with deals that called for up to 90 days in jail for the husband and 60 days for his wife.
Schapanski ordered Mayumi Heene to serve 20 days in jail after her husband completes his sentence. Her time served is flexible — she can report to jail on 10 weekends, for example — so the children are cared for, the judge said.
Prosecutors asked for the maximum sentence for the husband, saying that a message needs to be sent to promoters who attempt to carry out hoaxes to generate publicity. Chief Deputy District Attorney Andrew Lewis also asked for full restitution to reimburse authorities for the cost of investigating the hoax — an amount that could exceed $50,000.
"People around the world were watching this unfold," he said. "Mr. Heene wasted a lot of manpower and a lot of money in wanting to get himself some publicity."
He added, "Jay Leno said it best when he said, 'This is copycat game.' And people will copycat this event. (The Heenes) need to go to jail so people don't do that."
He portrayed the Heenes as growing increasingly desperate as their pitches for a reality TV show kept getting turned down by networks — and the family fell deeper into a financial hole. Lewis said the Heenes set in motion the balloon hoax in early October as a way to jumpstart the effort and get some attention.
They chose Oct. 15 because the weather was cooperating and the kids were home for school with parent-teacher conferences, allowing the Heenes to report that 6-year-old Falcon had floated away, Lewis said.
Once the parents were brought in for questioning, Richard Heene feigned sleep during the lie-detector test, claiming it was some sort of diabetic episode, Lewis said.
David Lane, Richard Heene's attorney, pleaded for leniency with the judge and said that the couple "have learned a lesson they will never forget for the rest of their lives." He also said that if someone has to go to jail, let it be Richard Heene and not his wife.
"That is his plea. That would be something of a Christmas miracle if that can occur," he said.
Thursday, December 17, 2009
Wednesday, December 16, 2009
Tuesday, December 15, 2009
کیا مائی لارڈ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں گے
کیا مائی لارڈ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں گے
تلخ نوائی ...........................…اظہار الحق مملکتیں جہاں ادارے بے توقیر ہوں، دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں! ایسی مملکتوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ نہ بین الاقوامی معاہدے، نہ کوئی قوتِ قاہرہ اور نہ مسلح لشکر۔ محفوظ تو کچھوا بھی ہوتا ہے لیکن اسے بچانے والی سخت کھال اتنی بھاری ہوتی ہے کہ وہ خطرے کے وقت بھاگ ہی نہیں سکتا اور وہی ’’بچانے‘‘ والی کھال اسے پکڑوا دیتی ہے! ملکوں کو ادارے بچاتے ہیں اور قوموں کو بین الاقوامی برادری میں عزت اس بنیاد پر ملتی ہے کہ ان قوموں کے ادارے کتنے مضبوط ہیں! اگر ذاتی پسند یا ناپسند اداروں کے انتظام میں دخل اندازی کرے اور سسٹم کوئی نہ ہو تو ادارے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ بات کسی کو پسند آئے یا بُری لگے، بات یہی ہے کہ ادارے تباہ ہو رہے ہوں تو یہ ملک کیلئے بدشگونی ہوتی ہے! کوئی ادارہ شاہ جہان اور اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد تخت نشینی کا فیصلہ کرنے والا ہوتا تو برصغیر کی تاریخ وہ نہ ہوتی جو آج ہے!
پاکستان کے صرف دو ادارے ایسے ہیں جہاں بھرتی کے حوالے سے میرٹ کی حکمرانی ہے! ان میں سے ایک کاکول ہے جہاں بّری فوج کیلئے افسر تیار ہوتے ہیں( معاملے کو آسان رکھنے کیلئے ہم فضائیہ اور بحریہ کی اکیڈیمیوں کا ذکر الگ سے نہیں کر رہے ورنہ ہماری مراد تینوں مسلح افواج سے ہے) ایسی درجنوں اور بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کاکول میں غریب کسانوں، سپاہیوں، حوالداروں، پرائمری سکول کے ٹیچروں اور عام لوگوں کے بچے کامیاب ہوگئے اور جرنیلوں وزیروں سفیروں اور امیروں کے بچے داخل نہ ہوسکے۔ مجھے یاد ہے، میں کاکول میں فائنل پاسنگ آئوٹ پریڈ دیکھنے کیلئے مدعو تھا۔ بڑے گیٹ سے باہر آتے ہوئے میں نے دیکھا…اور یہ منظر میں کبھی بھول نہیں سکتا… کہ تہبند میں ملبوس ایک کسان اپنے کیڈٹ بیٹے سے محوِ گفتگو تھا! کاکول سے نکلنے کے بعد کوئی جرنیل بن جائے اور اٹھائے ہوئے حلف کی دھجیاں اُڑا کر فرعون ہو جائے تو یہ بعد کا معاملہ ہے اور اس میں کاکول کا کوئی قصور نہیں!
پسرِ نُوح با بدان بنشت
خاندانِ بنوتش…گم شد
اس میں نوح علیہ السلام کا تو کوئی قصور نہیں تھا!
اب سوال یہ ہے کہ کاکول کا معیار کس طرح برقرار رکھا جا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے مسلح افواج کے اندرونی معاملات میں اہل سیاست کا عمل دخل نہیں ہے اور جو درگت سول سروس آف پاکستان کی اقربا پروری، دوست نوازی اور میرٹ کو قتل کرنے کی وجہ سے بنی ہے، الحمد للہ افواج پاکستان ابھی تک اس سے بچی ہوئی ہیں۔ وہ جو بّری فضائی اور بحری افواج کیلئے افسروں کو منتخب کرتے ہیں، انہیں تربیت دیتے ہیں، انہیں سزا دیتے ہیں، نکال باہر کرتے ہیں یا کامیاب قرار دیتے ہیں، انہیں ایک نظام کے تحت اس اہم ذمہ داری کیلئے چُنا جاتاہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے اور اس عمل میں اہلیت کا…بالعموم…قتل نہیں ہوتا!
دوسرا ادارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہے جو ہر سال مقابلے کا امتحان منعقد کرتا ہے اور اگلے 35 سال کیلئے فارن سروس، ضلعی انتظامیہ، پولیس، آڈیٹرجنرل، انکم ٹیکس اور دیگر محکموں کیلئے افسر بھرتی کرتا ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں کیلئے مقابلے کے امتحان منعقد کرنے کے علاوہ بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کئی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے، مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں کیلئے اساتذہ کا انتخاب کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کو ملازمتیں دیتا ہے اور سائنس دان بھرتی کرتا ہے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی تین سالوں میں ایک مستحسن فیصلہ کیا تھا کہ گریڈ 16 سے نیچے کی بھرتیاں بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کریگا۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جس نے سفارش کی بنیاد پر بھرتی کو ختم کردیا تھا لیکن ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو انہوں نے کمیشن سے یہ ذمہ داری واپس لے لی تاکہ سیاست دان بھرتیوں پر حسبِ سابق اثرانداز ہوتے رہیں… پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے زمانے میں وزیراعظم کا دفتر مختلف محکموںکو فہرستیں فراہم کرتا رہا۔ ان فہرستوں میں ’’خوش قسمت‘‘ امیدواروں کے نام ہوتے تھے!
بہرحال…فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا کمال یہ ہے کہ عام لوگوں کے بچے مقابلے کا امتحان پاس کرکے کامیاب ہو جاتے تھے۔ آخر الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب، سرتاج عزیز، آغا شاہی، عزیز احمد اور بے شمار دوسرے بیوروکریٹ… جنہوں نے اپنی ذہانت اور محنت سے ملک کی خدمت کی، عام خاندانوں ہی سے تو تھے اور یہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہی تھا جس نے میر ٹ اور اہلیت کی بنیاد پر انہیں چُنا تھا اور چُن کر حکومت کے سپرد کیا تھا۔ اب کچھ افسر اگر آغا شاہی اور سرتاج عزیز بننے کے بجائے کروڑ پتی بن گئے، کسی نے چودہ بنگلے بنا لئے، کسی نے (64) چونسٹھ پلاٹ ہتھیا لیے اور کوئی نیویارک میں جائیداد کا مالک بن بیٹھا تو اس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا قصور تھا نہ مقابلے کے امتحان کا!
سوال یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر کس بنیاد پر منتخب ہو رہے ہیں؟ بدقسمتی سے یہ ادارہ ذاتی پسند اور ناپسند کا شکار ہو رہا ہے۔ ایک پرائمری سکول چلانے کیلئے استاد کا انتخاب اور ڈاکخانہ چلانے کیلئے بابو کا انتخاب تو کسی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن جو ادارہ 35 سال کیلئے سرکاری افسروں کو چنتا ہے اس ادارے کے ممبر کسی بنیاد کے بغیر چُنے جارہے ہیں۔
جناب چیف جسٹس کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ معاملہ حد درجہ اہم ہے۔ یہ گڈ گورننس کا معاملہ ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے‘ اگر حکومت پاکستان فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ریٹائر افسرکو مقرر کرکے لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ دیتی ہے تو یہ تنخواہ قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ کس کو رکھا جا رہا ہے اور کس بنیاد پر؟ یہ بات کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ اپنی مرضی کے آدمی کا نام تجویز کرکے ایوان صدر کو بھیجیں، نہ آئین میں لکھی ہوئی ہے اور نہ کسی اور قانون میں۔گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازم فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر نہیں بنائے گئے، کس بنیاد پر نامنظور ہوئے؟ کیا ان کا حق نہیں کہ انکے ناموں پر بھی غور ہوتا اور انہیں نامنظور ہونے کی وجہ بتائی جاتی؟
اسی طرح فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل ایک اہم قومی ادارہ ہے۔ سرکاری ملازم حکومت کیخلاف یہاں مقدمے دائر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی تلافی کی درخواست کرتے ہیں۔ فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل کے ار کان کس بنیاد پر متعین اور منتخب ہو رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کویکسر نظرانداز کرکے گریڈ انیس بلکہ بیس کے ریٹائرڈ ملازموں کو ممبر لگایاجارہا ہے؟ خدا جانے یہ خبر غلط ہے یا صحیح لیکن سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ ممبر اتنے ’لائق‘‘ ہیں کہ فیصلے لکھنے کیلئے انہوں نے ’’ملازم‘‘ رکھے ہوئے ہیں! ہوسکتا ہے یہ غلط ہولیکن اصل سوال یہ ہے کہ ممبر متعین کرنے کا معیار کیا ہے؟
مائی لاڈ جناب واجب الاحترام چیف جسٹس! یہ ایک حساس معاملہ ہے۔یہ قومی اداروں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اس میں قومی خزانے کی خطیر رقم کا سوال ہے جو ہر ماہ ان ممبران کو تنخواہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ملازموں کی فہرست سے کچھ کو چُن لینا اور کچھ کو نظرانداز کرنا، قومی مفاد کے خلاف ہے۔ مائی لارڈ! کیا جناب والا حکومت کو ہدایت دیں گے کہ وہ اس کی وجوہ سے جناب والا کو اور پوری قوم کو آگاہ کرے؟ کیا مائی لارڈ اس حساس قومی معاملے کی خرابی کا ازخود نوٹس لیں گے؟
’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘
’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘ …
سردار محمد اسلم سکھیرا .....
پاکستان اس وقت بیرونی و اندرونی سازشوں سے ہمکنار ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے سابقہ تاریخ کا مطالعہ کرنا اہم ہے۔ 1971ء میں جو حالات تھے اور اس وقت جو حالات ہیں ان کا موازنہ اگر کیا جائے تو ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت کوئی قومی سطح کا لیڈر پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ سیاسی فضا بالکل وہی ہے جو 1971ء میں تھی۔
مغربی پاکستان میں اکثریت پی پی پی کی تھی لیکن ممتاز دولتانہ کی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی اکثریت تھی اور مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ ممتاز دولتانہ کیساتھ الحاق کرنا چاہتا تھا۔ سیاستدانوں کا 1971ء میں کیا رویہ تھا‘ اس کا سردار شوکت حیات کی تصنیف ’’The Nation that lost its soul‘‘ میں تفصیل سے ذکر ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے لیڈر گئے اور مجیب الرحمان سے ملاقات کی تو اس وقت مجیب الرحمان کے اردگرد تاج الدین اور بھارتی ایجنٹوں کی گرفت تھی۔ مجیب الرحمان بہانے کرکے انکو اِدھر اُدھر کرکے اکیلا مغربی پاکستان کے لیڈروں سے معاملہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن بھٹو اور یحییٰ خان تیار نہ تھے۔ جب ایجی ٹیشن عروج پر پہنچی تو مجیب الرحمان بھارتی ایجنٹوں کا قیدی تھا اور اسے آزادی نہ تھی کہ وہ مغربی لیڈر سے کوئی بات کرسکے۔
جی ڈبلیو چودھری کی کتاب ’’Last days of United Pakistan‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کو متحدہ پاکستان سے الگ کرنے میں سیاستدانوں نے کیا رول ادا کیا۔ اسکی دوسری کتاب ’’Major Powers and Pakistan‘‘ میں بیرونی طاقتوں کے رول کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ہنری کسنجر نے اپنی تصنیف ’’The White House Years‘‘ میں ’’Chapter XXI‘‘ میں ’’The Tilt, The India Pakistan crises of 1971‘‘ (Page 842 to 918) میں تفصیل سے اندرونی و بیرونی حالات کا تجزیہ کیا ہے‘ میں نے درجنوں کتابیں اس موضوع پر پڑھی ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر تجزیہ ہنری کسنجر کا ہے۔ میں اس وقت کے حکمرانوں‘ دانشوروں اور پالیسی ساز شخصیات سے گزارش کرونگا کہ بھارت اور امریکہ کے لیڈروں کی ذہنیت پرکھنے کیلئے اسکا مطالعہ ضرور کریں۔ ہنری کسنجر لکھتا ہے کہ بھارت کی شروع سے ہی نیت ٹھیک نہیں تھی‘ جو بھی امریکہ کے صدر یحییٰ سے رعایت دلوا کر کوئی صلح کی بات کا ماحول تیار کرتے تھے‘ بھارت اس میں ڈنڈی مارتا تھا۔ جب احتجاج عروج پر تھا‘ تب بھارت کیلئے ماحول سازگار ہورہا تھا۔ اندرا گاندھی نے پوری دنیا کا دورہ کیا اور پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے پاکستان کو ظالم قرار دلوانے کیلئے ہرممکن کوشش کی۔
پاکستانی فوج کی من گھڑت کہانیوں کی تشہیر کی گئی۔ مکتی باہنی کو ٹریننگ بھارت میں دی گئی۔ اسلحہ‘ مالی امداد سے ایک غیرقانونی فورس تیار کی گئی جس کی مدد بھارتی فوج کررہی تھی۔ پروپیگنڈہ مشینری نے جب دنیا میں کامیابی حاصل کرلی تو اندرا گاندھی نے یہ جاننے کیلئے کہ اگر بھارتی فوج اعلانیہ مشرقی پاکستان پر حملہ کردے تو امریکہ کا رویہ کیا ہوگا؟ اس نظریہ کے تحت اندرا گاندھی نے امریکہ کا دورہ کیا۔
امریکی صدر نکسن سے جب ملاقات ہوئی تو نکسن نے اندرا گاندھی سے کہا کہ یحییٰ خان نے ڈیکلیئر کردیا ہے کہ دسمبر میں عام معافی بنگالیوں کو یحییٰ خان نے دیدی ہے‘ جو بھارت میں بنگالی آئے ہوئے ہیں وہ واپس مشرقی پاکستان جاسکتے ہیں اور مجیب الرحمان نے مارچ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اپنے مقاصد حاصل کرنیوالی ہیں‘ آپ مضطرب کیوں ہیں؟ یہ جواب سن کر وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوگئیں اور بعد میں کہنے لگیں‘ اصل میں پاکستان غلط بنا ہے۔ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کے لوگ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے‘ میں نے انکو آزادی دلوانی ہے۔
پاکستان کی ائرفورس‘ فوج کو میں نے تباہ کرنا ہے۔ دوسرے صدیوں سے جو کہاوت مشہور ہے کہ ایک مسلمان ہزار ہندو پر فاتح ہوتا ہے کی ’’Myth‘‘ کو ختم کرنا ہے۔ کانگریس کا 1947ء کا ریزولیوشن بھی یہی تھا کہ عارضی طور پر پاکستان بننے دیا جائے اور ایسی رکاوٹیں راستے میں ڈالی جائیں کہ بالآخر پاکستان بھارت میں شامل ہوجائے۔ اسکی تکمیل کیلئے پارٹیشن کے وقت قتل و غارت اتنے وسیع پیمانے پر کرائی گئی کہ بھارتیوں کا خیال تھا کہ مہاجروں کا بوجھ پاکستان نہیں اٹھا سکے گا اور پاکستان ناکام ریاست بن جائیگا۔ خزانہ اور اسلحہ بھی پاکستان کے حصے کا نہ دیا گیا لیکن اس وقت کے لیڈر پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ انکی دن رات کی محنت اور بیوروکریسی کی انتھک محنت سے بھارت کی خواہش پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔
اسکے بعد حیدر آباد دکن پر چڑھائی کردی گئی اور غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا۔ پھر جونا گڑھ پر پولیس ایکشن کے بہانے غاصبانہ قبضہ کیا گیا۔ بالآخر کشمیر پر چڑھائی کردی گئی لیکن جن لوگوں کو اب القاعدہ یا طالبان کا نام دیکر امریکہ مار رہا ہے‘ انہی علاقوں کے قبائلی لوگوں کی مدد سے آزاد کشمیر کا علاقہ فتح کیا گیا‘ حالانکہ اس وقت کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے کشمیر پر فوج کشی کرنے سے انکار کردیا تھا یہ بہانہ بناکر کہ وہ سپریم کمانڈ آک لینڈ کے ماتحت ہیں اور برٹش آفیسر Dominion کی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ نہرو کو اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور استصواب کی قرارداد اقوام متحدہ نے پاس کی۔ اگرچہ یہ بھارت کی استدعا پر قرارداد پاس ہوئی تھی لیکن بھارت جوں جوں اپنی گرفت کشمیر پر مضبوط کرتا گیا‘ وہ استصواب سے منکر ہوتا گیا اور یوں کشمیر کا معاملہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔
اسی طرح پانی کا مسئلہ شروع کیا گیا۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بنیک کی اعانت سے ہوا جس میں دریائے سندھ‘ چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے اور دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس بھارت کے حصے میں آئے ۔
لیکن تاریخ گواہ ہے بھارت معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم دریائے چناب اور دریائے جہلم پر بناکر ان دونوں دریائوں کا پانی روک لیا ہے اور ہمارے ایکسپرٹ ظہورالحسن ڈاہرصاحب نے کل ہی اخبارات میں بیان دیا تھا کہ 2012ء تک منگلا ڈیم بالکل خشک ہوجائیگا۔ دریائے سندھ کے آغاز پر بھی ایک ٹنل بنائی جا رہی ہے جس سے دریائے سندھ کا پانی بھی روک لیا جائیگا۔ کونسا موقع ہے جو بھارت پاکستان دشمنی میں حاصل نہیں کررہا۔ پاکستانی لیڈر جو بھارت نوازی کا کہتے ہیں ان سے پوچھیں کہ کیا بھارت کا ٹریک ریکارڈ کبھی ایسا ہوا ہے جس سے ان سے بھلائی کی توقع ہے؟ حالیہ افغانستان کی ٹیرر وار میں جانی و مالی نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔
بھارت نے افغانستان میں 34 چوکیاں جو بنائی ہیں جہاں سے لوگوں کو پیسہ اور ٹریننگ دیکر سوات‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں ہی نہیں بلکہ پشاور‘ لاہور‘ ملتان‘ بلوچستان میں اسلحہ اور پیسہ دیکر بھارتی ایجنٹ بھیجے جا رہے ہیں جو پاکستان کی فوج سے بھی لڑ رہے ہیں اور اب شہروں میں تخریب کاری کیلئے بھیج کر ہر روز تخریب کاری کروائی جا رہی ہے اور اب تک سات ہزار سے زائد لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ (جاری ہے)
اگر 1971ء کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو وہی حالات اب پاکستان میں ہیں۔ ایک طرف انتشار عروج پر ہے دوسری طرف وہی ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ اندرا گاندھی کی طرح بھارت کے موجودہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے پہلے امریکہ کا دورہ کیا ہے جس میں جوائنٹ ڈیکلریشن ہوئی۔ اس میں بھی پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی روکے‘ اور جو بلوچستان میں‘ سرحد میں‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں بھارتی ایجنٹ تباہی پھیلا رہے ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ منموہن سنگھ امریکہ کیساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ حالانکہ بھارت کے ایک نیوکلیئر انجینئر کو قتل کیا گیا‘ یورینیم چوری بھی ہوئی اور حال ہی میں ایٹمی تابکاری بھی ہوئی لیکن بھارت پر کوئی الزام نہیں بلکہ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ایٹمی آلات نیوکلیئر پاور ملکوں سے جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے اور اس سلسلے میں اسکا کینیڈا سے معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ اب منموہن سنگھ نے روس سے بھی ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرلیا ہے اور بھارت یورینیم وہاں سے بھی خریدیگا اور چار ایٹمی ری ایکٹر روس بھارت کو لگا کر دیگا۔ مشرقی پاکستان کے احتجاج کے دوران بھارت نے روس سے دوستی کا جو معاہدہ کیا تھا اس کی وجہ سے روسی ریڈار سسٹم نے پاکستانی ائرفورس کو مفلوج کردیا تھا۔ امریکہ سے پارٹنرشپ کا معاہدہ ہے۔ روس سے نئی دوستی کے معاہدے کی شکل میں ایٹمی معاہدہ کرلیا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ بین الاقوامی فضا 1971ء سے بھی بدتر ہے۔ امریکہ نے 30 ہزار فوج مزید بھیجنے کی اجازت دیدی ہے جو قندھار میں رکھی جائیگی اور بلوچستان پر یلغار کی جائیگی۔
پاکستان اس وقت بیرونی و اندرونی سازشوں سے ہمکنار ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے سابقہ تاریخ کا مطالعہ کرنا اہم ہے۔ 1971ء میں جو حالات تھے اور اس وقت جو حالات ہیں ان کا موازنہ اگر کیا جائے تو ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت کوئی قومی سطح کا لیڈر پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ سیاسی فضا بالکل وہی ہے جو 1971ء میں تھی۔
مغربی پاکستان میں اکثریت پی پی پی کی تھی لیکن ممتاز دولتانہ کی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی اکثریت تھی اور مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ ممتاز دولتانہ کیساتھ الحاق کرنا چاہتا تھا۔ سیاستدانوں کا 1971ء میں کیا رویہ تھا‘ اس کا سردار شوکت حیات کی تصنیف ’’The Nation that lost its soul‘‘ میں تفصیل سے ذکر ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے لیڈر گئے اور مجیب الرحمان سے ملاقات کی تو اس وقت مجیب الرحمان کے اردگرد تاج الدین اور بھارتی ایجنٹوں کی گرفت تھی۔ مجیب الرحمان بہانے کرکے انکو اِدھر اُدھر کرکے اکیلا مغربی پاکستان کے لیڈروں سے معاملہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن بھٹو اور یحییٰ خان تیار نہ تھے۔ جب ایجی ٹیشن عروج پر پہنچی تو مجیب الرحمان بھارتی ایجنٹوں کا قیدی تھا اور اسے آزادی نہ تھی کہ وہ مغربی لیڈر سے کوئی بات کرسکے۔
جی ڈبلیو چودھری کی کتاب ’’Last days of United Pakistan‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کو متحدہ پاکستان سے الگ کرنے میں سیاستدانوں نے کیا رول ادا کیا۔ اسکی دوسری کتاب ’’Major Powers and Pakistan‘‘ میں بیرونی طاقتوں کے رول کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ہنری کسنجر نے اپنی تصنیف ’’The White House Years‘‘ میں ’’Chapter XXI‘‘ میں ’’The Tilt, The India Pakistan crises of 1971‘‘ (Page 842 to 918) میں تفصیل سے اندرونی و بیرونی حالات کا تجزیہ کیا ہے‘ میں نے درجنوں کتابیں اس موضوع پر پڑھی ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر تجزیہ ہنری کسنجر کا ہے۔ میں اس وقت کے حکمرانوں‘ دانشوروں اور پالیسی ساز شخصیات سے گزارش کرونگا کہ بھارت اور امریکہ کے لیڈروں کی ذہنیت پرکھنے کیلئے اسکا مطالعہ ضرور کریں۔ ہنری کسنجر لکھتا ہے کہ بھارت کی شروع سے ہی نیت ٹھیک نہیں تھی‘ جو بھی امریکہ کے صدر یحییٰ سے رعایت دلوا کر کوئی صلح کی بات کا ماحول تیار کرتے تھے‘ بھارت اس میں ڈنڈی مارتا تھا۔ جب احتجاج عروج پر تھا‘ تب بھارت کیلئے ماحول سازگار ہورہا تھا۔ اندرا گاندھی نے پوری دنیا کا دورہ کیا اور پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے پاکستان کو ظالم قرار دلوانے کیلئے ہرممکن کوشش کی۔
پاکستانی فوج کی من گھڑت کہانیوں کی تشہیر کی گئی۔ مکتی باہنی کو ٹریننگ بھارت میں دی گئی۔ اسلحہ‘ مالی امداد سے ایک غیرقانونی فورس تیار کی گئی جس کی مدد بھارتی فوج کررہی تھی۔ پروپیگنڈہ مشینری نے جب دنیا میں کامیابی حاصل کرلی تو اندرا گاندھی نے یہ جاننے کیلئے کہ اگر بھارتی فوج اعلانیہ مشرقی پاکستان پر حملہ کردے تو امریکہ کا رویہ کیا ہوگا؟ اس نظریہ کے تحت اندرا گاندھی نے امریکہ کا دورہ کیا۔
امریکی صدر نکسن سے جب ملاقات ہوئی تو نکسن نے اندرا گاندھی سے کہا کہ یحییٰ خان نے ڈیکلیئر کردیا ہے کہ دسمبر میں عام معافی بنگالیوں کو یحییٰ خان نے دیدی ہے‘ جو بھارت میں بنگالی آئے ہوئے ہیں وہ واپس مشرقی پاکستان جاسکتے ہیں اور مجیب الرحمان نے مارچ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اپنے مقاصد حاصل کرنیوالی ہیں‘ آپ مضطرب کیوں ہیں؟ یہ جواب سن کر وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوگئیں اور بعد میں کہنے لگیں‘ اصل میں پاکستان غلط بنا ہے۔ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کے لوگ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے‘ میں نے انکو آزادی دلوانی ہے۔
پاکستان کی ائرفورس‘ فوج کو میں نے تباہ کرنا ہے۔ دوسرے صدیوں سے جو کہاوت مشہور ہے کہ ایک مسلمان ہزار ہندو پر فاتح ہوتا ہے کی ’’Myth‘‘ کو ختم کرنا ہے۔ کانگریس کا 1947ء کا ریزولیوشن بھی یہی تھا کہ عارضی طور پر پاکستان بننے دیا جائے اور ایسی رکاوٹیں راستے میں ڈالی جائیں کہ بالآخر پاکستان بھارت میں شامل ہوجائے۔ اسکی تکمیل کیلئے پارٹیشن کے وقت قتل و غارت اتنے وسیع پیمانے پر کرائی گئی کہ بھارتیوں کا خیال تھا کہ مہاجروں کا بوجھ پاکستان نہیں اٹھا سکے گا اور پاکستان ناکام ریاست بن جائیگا۔ خزانہ اور اسلحہ بھی پاکستان کے حصے کا نہ دیا گیا لیکن اس وقت کے لیڈر پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ انکی دن رات کی محنت اور بیوروکریسی کی انتھک محنت سے بھارت کی خواہش پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔
اسکے بعد حیدر آباد دکن پر چڑھائی کردی گئی اور غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا۔ پھر جونا گڑھ پر پولیس ایکشن کے بہانے غاصبانہ قبضہ کیا گیا۔ بالآخر کشمیر پر چڑھائی کردی گئی لیکن جن لوگوں کو اب القاعدہ یا طالبان کا نام دیکر امریکہ مار رہا ہے‘ انہی علاقوں کے قبائلی لوگوں کی مدد سے آزاد کشمیر کا علاقہ فتح کیا گیا‘ حالانکہ اس وقت کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے کشمیر پر فوج کشی کرنے سے انکار کردیا تھا یہ بہانہ بناکر کہ وہ سپریم کمانڈ آک لینڈ کے ماتحت ہیں اور برٹش آفیسر Dominion کی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ نہرو کو اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور استصواب کی قرارداد اقوام متحدہ نے پاس کی۔ اگرچہ یہ بھارت کی استدعا پر قرارداد پاس ہوئی تھی لیکن بھارت جوں جوں اپنی گرفت کشمیر پر مضبوط کرتا گیا‘ وہ استصواب سے منکر ہوتا گیا اور یوں کشمیر کا معاملہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔
اسی طرح پانی کا مسئلہ شروع کیا گیا۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بنیک کی اعانت سے ہوا جس میں دریائے سندھ‘ چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے اور دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس بھارت کے حصے میں آئے ۔
لیکن تاریخ گواہ ہے بھارت معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم دریائے چناب اور دریائے جہلم پر بناکر ان دونوں دریائوں کا پانی روک لیا ہے اور ہمارے ایکسپرٹ ظہورالحسن ڈاہرصاحب نے کل ہی اخبارات میں بیان دیا تھا کہ 2012ء تک منگلا ڈیم بالکل خشک ہوجائیگا۔ دریائے سندھ کے آغاز پر بھی ایک ٹنل بنائی جا رہی ہے جس سے دریائے سندھ کا پانی بھی روک لیا جائیگا۔ کونسا موقع ہے جو بھارت پاکستان دشمنی میں حاصل نہیں کررہا۔ پاکستانی لیڈر جو بھارت نوازی کا کہتے ہیں ان سے پوچھیں کہ کیا بھارت کا ٹریک ریکارڈ کبھی ایسا ہوا ہے جس سے ان سے بھلائی کی توقع ہے؟ حالیہ افغانستان کی ٹیرر وار میں جانی و مالی نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔
بھارت نے افغانستان میں 34 چوکیاں جو بنائی ہیں جہاں سے لوگوں کو پیسہ اور ٹریننگ دیکر سوات‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں ہی نہیں بلکہ پشاور‘ لاہور‘ ملتان‘ بلوچستان میں اسلحہ اور پیسہ دیکر بھارتی ایجنٹ بھیجے جا رہے ہیں جو پاکستان کی فوج سے بھی لڑ رہے ہیں اور اب شہروں میں تخریب کاری کیلئے بھیج کر ہر روز تخریب کاری کروائی جا رہی ہے اور اب تک سات ہزار سے زائد لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ (جاری ہے)
اگر 1971ء کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو وہی حالات اب پاکستان میں ہیں۔ ایک طرف انتشار عروج پر ہے دوسری طرف وہی ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ اندرا گاندھی کی طرح بھارت کے موجودہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے پہلے امریکہ کا دورہ کیا ہے جس میں جوائنٹ ڈیکلریشن ہوئی۔ اس میں بھی پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی روکے‘ اور جو بلوچستان میں‘ سرحد میں‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں بھارتی ایجنٹ تباہی پھیلا رہے ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ منموہن سنگھ امریکہ کیساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ حالانکہ بھارت کے ایک نیوکلیئر انجینئر کو قتل کیا گیا‘ یورینیم چوری بھی ہوئی اور حال ہی میں ایٹمی تابکاری بھی ہوئی لیکن بھارت پر کوئی الزام نہیں بلکہ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ایٹمی آلات نیوکلیئر پاور ملکوں سے جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے اور اس سلسلے میں اسکا کینیڈا سے معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ اب منموہن سنگھ نے روس سے بھی ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرلیا ہے اور بھارت یورینیم وہاں سے بھی خریدیگا اور چار ایٹمی ری ایکٹر روس بھارت کو لگا کر دیگا۔ مشرقی پاکستان کے احتجاج کے دوران بھارت نے روس سے دوستی کا جو معاہدہ کیا تھا اس کی وجہ سے روسی ریڈار سسٹم نے پاکستانی ائرفورس کو مفلوج کردیا تھا۔ امریکہ سے پارٹنرشپ کا معاہدہ ہے۔ روس سے نئی دوستی کے معاہدے کی شکل میں ایٹمی معاہدہ کرلیا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ بین الاقوامی فضا 1971ء سے بھی بدتر ہے۔ امریکہ نے 30 ہزار فوج مزید بھیجنے کی اجازت دیدی ہے جو قندھار میں رکھی جائیگی اور بلوچستان پر یلغار کی جائیگی۔
Sunday, December 13, 2009
वेल्ल बा Ba
WELLA BA BA..........
When a person get old in Europe they send him to old hous and we Asian people always propagate it negatively. In Asia when a person get old we don't send him to old house and keep him at home every body knows he is a free man now and will not do any work at home but his wife and daughter in law how use him like donkey?. Just hear this funny poem of such a retired free man and you gill get the truth.
When a person get old in Europe they send him to old hous and we Asian people always propagate it negatively. In Asia when a person get old we don't send him to old house and keep him at home every body knows he is a free man now and will not do any work at home but his wife and daughter in law how use him like donkey?. Just hear this funny poem of such a retired free man and you gill get the truth.
Saturday, December 12, 2009
Friday, December 11, 2009
شمالی وزیرستان پر ڈرون حملے میں اہم القاعدہ رہنما ہلاک
شمالی وزیرستان پر ڈرون حملے میں اہم القاعدہ رہنما ہلاک
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان پر کیے گئے ڈرون حملے میں القاعدہ کے ایک اہم رہنما ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک امریکی عہدیدار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ منگل کو کیے گئے ڈرون حملے میں القاعدہ کے اہم رہنما صالح الصومالی ہلاک ہوئے ہیں۔
دیگر امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صالح الصومالی کا شمار القاعدہ کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ الصومالی القاعدہ کی بیرونی تعلقات کی نگرانی کرتے تھے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق انسداد دہست گردی کے اعلیٰ امریکی افسر نے بتایا کہ الصومالی کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ میں حملوں کا منصوبہ تیار کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ الصومالی کے تعلقات پاکستان کی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الصومالی کو القاعدہ کے سینیئر رہنماؤں سے رہنمائی ملتی تھی اور وہ تکمیل کے لیے منصوبہ بندی کرتے تھے۔
الصومالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان سے کے علاوہ مختلف ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کے سربراہ تھے اور ان کے زیر اثر علاقے افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں منگل کو ڈرون طیارے کے میزائل حملوں میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مقامی انتظامیہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ یہ حملہ منگل کی صبح چھ بج کی بیس منٹ پر میران شاہ سے پندرہ کلومیٹر جنوب میں سپلگاہ کے مقام پر ہوا۔
انتظامیہ کے مطابق حملے کا نشانہ ایک کار تھی جس پر دو میزائل داغے گئے۔ حکام کا کہنا تھا کہ اس حملے میں کار مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار تینوں افراد ہلاک ہوگئے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے تینوں افراد طالبان تھے۔
یہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران چوتھا موقع تھا کہ ڈرون طیاروں نے شمالی وزیرستان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ کی بیس تاریخ کو میر علی کے مچی خیل علاقے میں شدت پسندوں کے کمپاؤنڈ کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا تھاجس میں کم از کم آٹھ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ملی تھیں۔
خیال ہے کہ شمالی وزیرستان میں مبینہ امریکی حملے ایسے وقت ہو رہے ہیں جب اس سے متصل جنوبی وزیرستان میں پاکستان فوج نے بیت اللہ گروپ کے طالبان کے خلاف کئی ہفتے سے فوجی کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے اور حکام کے مطابق زیادہ تر علاقے پر فوج کو کنٹرول حاصل ہوگیا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جنوبی وزیرستان سے بڑی تعداد میں طالبان جنگجو شمالی وزیرستان، اورکزئی ایجنسی اور دیگر قبائلی علاقوں کی طرف منتقل ہوچکے ہیں
دہشت گردی کی تیاری کے الزام میں گرفتار تین امریکی
صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے گزشتہ دنوں دہشت گردی کی تیاری کے
الزام میں گرفتار تین امریکی، ایک مصری اور ایک پاکستانی نوجوان پولیس رپورٹ کے مطابق افغانستان جانے کی غرض سے پاکستان آئے تھے۔
الزام میں گرفتار تین امریکی، ایک مصری اور ایک پاکستانی نوجوان پولیس رپورٹ کے مطابق افغانستان جانے کی غرض سے پاکستان آئے تھے۔
سرگودھا پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جس کی ایک کاپی بی بی سی کو بھی ملی ہے ان پانچ طلبہ نے جیش محمد اور جماعت الدوعوہ کے مدارس سے اس بابت مدد کے لیے رجوع بھی کیا تھا تاہم انہیں کوئی مثبت جواب وہاں سے نہیں ملا۔ جماعت الدعوہ لاہور نے بھی ان کے بارے میں ضمانتیں نہ ملنے پر ان کی مدد سے انکار کیا تھا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق اس کے بعد یہ غیرملکی طلبہ سرگودھا اپنے دوست عمر فاروق کے پاس آگئے۔ پولیس نے ان افراد سے ان کے لیپ ٹاپس، موبائل، آئی پوڈ اور بیرونی ہارڈ ڈرائیو بھی برآمد کی ہیں۔
ابتدائی پولیس تفتیش کے مطابق ان طلبہ سے سیف اللہ نامی کسی شخص نے انہیں افغانستان لے جانے کے لیے رابطہ کیا تھا۔ اسی مقصد کے لیے وہ پاکستان مختلف دنوں میں آئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ملزمان آپس میں رابطے کے ایک ایک انوکھا طریقہ استعمال کرتے تھے۔ پولیس کے بقول وہ تحقیقاتی اداروں سے بچنے کی خاطر ایک دوسرے سے ای میل کے ذریعے رابطہ نہیں کرتے تھے۔ وہ انٹرنیٹ ای میل اکاؤنٹ سے لاگ ان ہوتے اور اس کے ڈرافٹ فولڈر میں اپنا پیغام محفوظ کرلیتے تھے۔ اسی اکاؤنٹ کو دوسرا آدمی لاگ ان کرتا اور پیغام پڑھ لیتا تھا۔
پولیس کی تفتیش کے مطابق ملزمان تیس نومبر کو کراچی پہنچے اور پھر حیدر آباد سندھ اور لاہور سے ہوتے ہوئے سرگودھا آ گئے جہاں اپنے ایک ساتھی پاکستانی نژاد امریکی شہری عمرفاروق کے گھر قیام پذیر ہوئے
نو دسمبر کو سرگودھا سے گرفتار ہونے والے ان پانچوں افراد کا مذہب سے خاص لگاؤ بتایا جاتا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق یہ کالج طلبہ ’کافروں کے خلاف جہاد’ کے حامی تھے۔ ان میں سے ایک احمد عبداللہ منی باقاعدگی سے انٹرنٹ ویب سائٹ یو ٹیب جایا کرتا تھا۔ وہ مبینہ طور پر امریکی فوجیوں اور تنصیبات پر حملوں کی باقاعدگی سے حمایت کرتا تھا۔
نام: وقار حسین خان
والد: ایم سعید خان
تاریخ پیدائش: گیارہ اگست انیس سو ستاسی
جائے پیدائش: ورجینا، امریکہ
آمد پاکستان: یکم دسمبر، دو ہزار نو
نام: احمد عبداللہ منی
والد: نامعلوم
تاریخ پیدائش: چار دسمبر انیس سو نواسی
سرگودھا سے گرفتار افراد سے قبضے میں لیے گئے موبائل فون، آئی پوڈ، ہارڈ ڈسک وغیرہآمد پاکستان: تیس نومبر، دو ہزار نو
نام: رامے ایس زمزم
والد: نامعلوم
تاریخ پیدائش: انیس ستمبر، انیس سو ستاسی
جائے پیدائش: مصر
آمد پاکستان: یکم دسمبر، دو ہزار نو
نام: امان حسن یمر
والد: نامعلوم
تاریخ پیدائش: پانچ مئی انیس سو اکانوے
جائے پیدائش: کیلفورنیا، امریکہ
آمد پاکستان: تیس نومبر، دو ہزار نو
نام: عمر فاروق
والد: خالد فاروق
تاریخ پیدائش: انیس سو پچاسی
جائے پیدائش: سرگودھا، پاکستان
حکام کے مطابق یہ وہی نوجوان ہیں جو چند مہینے پہلے امریکی ریاست ورجینیا کے شہر الیگزنڈرا سے غائب ہوگئے تھے۔ امریکی حکام نے بھی سرگودھا میں ان افراد سے پوچھ گچھ کی ہے اور اب غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق انہیں اسلام آباد لایا جا رہا ہے جہاں سے انہیں اگلے چوبیس گھنٹوں میں امریکہ روانہ کئے جانے کا امکان ہے۔ حکام اس بارے میں تاہم کچھ بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ ملزموں نے شدت پسندوں سے اپنا تعلق اس حد تک بنا لیا تھا کہ انھوں نے اپنا ہی ایک گروپ بنا کر خود کو جہاد کے لیے پیش کردیا۔
پولیس کی تفتیش کے مطابق ملزمان تیس نومبر کو کراچی پہنچے اور پھر حیدر آباد سندھ اور لاہور سے ہوتے ہوئے سرگودھا آ گئے جہاں اپنے ایک ساتھی پاکستانی نژاد امریکی شہری عمرفاروق کے گھر قیام پذیر ہوئے۔
پولیس نے عمر فاروق کے والد کو بھی حراست میں لے لیا ہے کیونکہ ان پر شبہہ ہے کہ انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایف بی آئی کو مطلوب ہیں پناہ دی۔
پولیس ان شدت پسندوں تک پہنچنے کی بھی کوشش کر رہی ہے جن سے ان پانچوں امریکیوں کا رابطہ تھا۔ان پانچوں افراد کے خلاف فارنرز ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے اور پاکستان میں پرتشدد کارروائیاں کرنے کے الزامات کے تحت تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
Birthdays Egyptian writer Naguib Mahfouz - Naguib Mahfouz
One of the greatest writers who have ever been of Arab culture throughout the ages
It was his life Nozja for devotion to writing, creativity and most important is represented by Odipana Naguib Mahfouz
That the author was not only Egypt, but he was polite to all Arabs
Although the pen did not leave Cairo and acolytes
It was able to represent all Arab cities and the lanes, and inhabited by figures
The literature is the best embodiment of the saying of
The local is the way to a global
He was able to highlight the concerns and human suffering
Through a narrow segment of the middle class Egyptian
And put through the hot Egyptian and Arab
All questions concerning the fate of human
Which his family to win the Nobel Prize for Literature in 1988.
Naguib Mahfouz was born in Cairo district aesthetic, in the December 11, 1911
He spent his childhood in the neighborhood aesthetic then went traveling with his family in the prestigious districts in Cairo, Egypt joined the university in 1930 and earned a Bachelor of Arts Department of Philosophy in 1934 Mahfouz began writing philosophical articles in newspapers and shuttling between government jobs, were unhappy about his life this way - It is said that the crisis Mental undergone by Kamal Abdel-Gawad, the protagonist (sugar) is the same crisis that was going through saved at this time.
Naguib Mahfouz tried to write the story and the story received warmly in the popular literary situation in his early forties. Mahfouz later wrote his trilogy Pharaonic (Radubis - futility of predestination - the struggle of good) and it was clear that it acts down on the ground black in this day and age. And then go to write a Mahfouz novel realism He wrote important works such as (beginning and end) (Mirage) (lane Medak), which are pivotal shift in the history of Egyptian literature .. Mahfouz has been submitted in this novel all the hot Egyptian secretes they contain a distinct literary form.
With the beginning of the fifties made Mahfouz Taha Hussein, his teacher, the most important (triple) Taha Hussein has praised the work highly commend. Met with three problems in the beginning especially in the publication of the large size, but later work was published in three parts into three major literary work written in Arabic in the last century. After the Tripartite Action Archive Ksenarist period in Egyptian cinema, co-authored several scenarios of the films made mention them (Ehna students - Al-Nasser Salah al-Din).
In the sixties opened up the headwaters of the genius of Naguib Mahfouz and completed maturity largely wrote the novel realism (such as Thief and the Dogs), and the novel, such as the absurd (Adrift on the Nile), and the stories Sufi (High God), and the novel with a clear religious projections (boys Gabalawy or Children of the Alley) novel which has been criticized harshly by some skeptics.
Naguib Mahfouz proved during his trip that the literary writer is not confined himself within the literary school, he moved from one school to another is smooth and has demonstrated proficiency in all works by .. Not only that, but tried to provide new forms of fiction as he did with (Miramar) or when he wrote the epic special way as he did with (Aharavi).
In 1988, Mahfouz won the Nobel Prize, the most famous international award in the arts, which obtained before and after the greatest writers and philosophers in the last century. In Egypt and the Arab world views differed on the winning Mahfouz Mahfouz Group of joy because he won the first Arab writer to receive this award, and the opening is important for Arab literature in general, and, above all, Mahfouz deserved. and a team win condemned Mahfouz as saying that he does not deserve or peaceful thoughts towards Israel, for example, or for stamping on religion in his novels, as has been said.
On the outside there was a major problem is that everyone interested in literature at the time was unaware of the name preserved completely, but this was in the past but now taller Vmahvoz world literature, and novels written by a lifelong become translated into many languages of the world does not need foreign translators to say : Egyptian writer, just say: Naguib Mahfouz.
Mahfouz died on Wednesday, August 30, 2006.
Perhaps the main reason for a celebration of Arab Bnaguib Mahfouz and his discovery before being discovered by the Nobel Prize years is the passion for Arabic language and the absence of temptation to write in the colloquial language which incites some critics to use.
Wednesday, December 9, 2009
Tuesday, December 8, 2009
Monday, December 7, 2009
Sunday, December 6, 2009
Friday, December 4, 2009
These were the Kharjites (Kharjite means one who rebels against religion).
| ||
| ||
Thursday, December 3, 2009
HE want to reestablish Din-e-Ellahi once interdouced by Aurongzaib alemgir.
THIS IS MY REQUEST TO ALL MUSLIMS.
All who are educated and well aw-aired please teaches the peoples who are ignorant that this guy is a real DEVIL just take a look of his teaching you will realize my words.
Ark of the Covenant (Taboot-e- Sakina)
The Holy Black Stone at Mecca is infact "The Ark of the Covenant" (Taboot-e-Sakina). This was revealed to Adam by God. The old Testament speaks clearly of the Divine power of the Ark and it has been considered sacred since ancient times. It is also clearly mentioned in the Holy scriptures that this Ark contains the images of all the Prophets and holy personalities.
The images of His Holiness Riaz Ahmed Gohar Shahi, Jesus Christ, Moses, Prophet Muhammad (PBUH), Virgin Mary and Durga Maa are appearing on the holy Black Stone (Hijre Aswad) Mecca, Saudi Arabia, which is considered to be the most holy place on earth for Muslims. These are marked on the following pictures of Black Stone (Hijre Aswad).
Photographs of the Black Stone published by Mirza Library, Makkah
The face of His Holiness Gohar Shahi on the Black Stone can be seen when it is viewed upside down. The image has appeared naturally on the Black Stone.
This book was published by Education Department in Pakistan. Here it is shown upside down. It bears a photograph of the black stone with the image of His Holiness Gohar Shahi clearly visible on it |
Jussa-e-Gohar Shahi (a spiritual entity) was awarded at the age of 25, with the rank of Command-in-Chief of the Spiritual army
Image of Jesus Christ, Prophet Muhammad (PBUH), Virgin Mary and Durga Maa are also visible on the Holy Black Stone
Both of the images, appeared in the Holy Black Stone, the Hajre Aswad, in the year 2000. These images are still present and visible in the Hajre Aswad, (Ka'baa, Saudi Arabia). Photographs of the Hajre Aswad can be obtained from Muslim Libraries and homes. The image No.1 and image No.2 are beyond any doubt and suspicion, as the Holy Black Stone is fitted in a sacred and guarded place. | |
These images have existed for a long time and are decorated with, in almost every church and Christian homes | |
This picture of the ace of Jesus of Nazareth appeared miraculously when photographs were taken of the return of a chalice to the tabernacle of a Spanish Church, which had been pillaged during the Spanish civil war (1936 - 39). Vassula was given a reproduction of this picture on her recent visit to South America. Those familiar with the miraculous picture taken by St. Anna Ali, a nun living in Rome whom Vassula has met, will recognize the similarity. However, it is important to point out that these two pictures were created independently. | |
This symbolic image of Kalki Avtar on a horse is appearing on Hijre Aswad
The facial image of DurgaMaa is visible on Hijre Aswad (Maha Shiv Ling) as marked on above big picture
Subscribe to:
Posts (Atom)