Tuesday, December 15, 2009

’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘

’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘ …

 
سردار محمد اسلم سکھیرا .....
پاکستان اس وقت بیرونی و اندرونی سازشوں سے ہمکنار ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے سابقہ تاریخ کا مطالعہ کرنا اہم ہے۔ 1971ء میں جو حالات تھے اور اس وقت جو حالات ہیں ان کا موازنہ اگر کیا جائے تو ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت کوئی قومی سطح کا لیڈر پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ سیاسی فضا بالکل وہی ہے جو 1971ء میں تھی۔
مغربی پاکستان میں اکثریت پی پی پی کی تھی لیکن ممتاز دولتانہ کی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی اکثریت تھی اور مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ ممتاز دولتانہ کیساتھ الحاق کرنا چاہتا تھا۔ سیاستدانوں کا 1971ء میں کیا رویہ تھا‘ اس کا سردار شوکت حیات کی تصنیف ’’The Nation that lost its soul‘‘ میں تفصیل سے ذکر ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے لیڈر گئے اور مجیب الرحمان سے ملاقات کی تو اس وقت مجیب الرحمان کے اردگرد تاج الدین اور بھارتی ایجنٹوں کی گرفت تھی۔ مجیب الرحمان بہانے کرکے انکو اِدھر اُدھر کرکے اکیلا مغربی پاکستان کے لیڈروں سے معاملہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن بھٹو اور یحییٰ خان تیار نہ تھے۔ جب ایجی ٹیشن عروج پر پہنچی تو مجیب الرحمان بھارتی ایجنٹوں کا قیدی تھا اور اسے آزادی نہ تھی کہ وہ مغربی لیڈر سے کوئی بات کرسکے۔
جی ڈبلیو چودھری کی کتاب ’’Last days of United Pakistan‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کو متحدہ پاکستان سے الگ کرنے میں سیاستدانوں نے کیا رول ادا کیا۔ اسکی دوسری کتاب ’’Major Powers and Pakistan‘‘ میں بیرونی طاقتوں کے رول کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ہنری کسنجر نے اپنی تصنیف ’’The White House Years‘‘ میں ’’Chapter XXI‘‘ میں ’’The Tilt, The India Pakistan crises of 1971‘‘ (Page 842 to 918) میں تفصیل سے اندرونی و بیرونی حالات کا تجزیہ کیا ہے‘ میں نے درجنوں کتابیں اس موضوع پر پڑھی ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر تجزیہ ہنری کسنجر کا ہے۔ میں اس وقت کے حکمرانوں‘ دانشوروں اور پالیسی ساز شخصیات سے گزارش کرونگا کہ بھارت اور امریکہ کے لیڈروں کی ذہنیت پرکھنے کیلئے اسکا مطالعہ ضرور کریں۔ ہنری کسنجر لکھتا ہے کہ بھارت کی شروع سے ہی نیت ٹھیک نہیں تھی‘ جو بھی امریکہ کے صدر یحییٰ سے رعایت دلوا کر کوئی صلح کی بات کا ماحول تیار کرتے تھے‘ بھارت اس میں ڈنڈی مارتا تھا۔ جب احتجاج عروج پر تھا‘ تب بھارت کیلئے ماحول سازگار ہورہا تھا۔ اندرا گاندھی نے پوری دنیا کا دورہ کیا اور پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے پاکستان کو ظالم قرار دلوانے کیلئے ہرممکن کوشش کی۔
پاکستانی فوج کی من گھڑت کہانیوں کی تشہیر کی گئی۔ مکتی باہنی کو ٹریننگ بھارت میں دی گئی۔ اسلحہ‘ مالی امداد سے ایک غیرقانونی فورس تیار کی گئی جس کی مدد بھارتی فوج کررہی تھی۔ پروپیگنڈہ مشینری نے جب دنیا میں کامیابی حاصل کرلی تو اندرا گاندھی نے یہ جاننے کیلئے کہ اگر بھارتی فوج اعلانیہ مشرقی پاکستان پر حملہ کردے تو امریکہ کا رویہ کیا ہوگا؟ اس نظریہ کے تحت اندرا گاندھی نے امریکہ کا دورہ کیا۔
امریکی صدر نکسن سے جب ملاقات ہوئی تو نکسن نے اندرا گاندھی سے کہا کہ یحییٰ خان نے ڈیکلیئر کردیا ہے کہ دسمبر میں عام معافی بنگالیوں کو یحییٰ خان نے دیدی ہے‘ جو بھارت میں بنگالی آئے ہوئے ہیں وہ واپس مشرقی پاکستان جاسکتے ہیں اور مجیب الرحمان نے مارچ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اپنے مقاصد حاصل کرنیوالی ہیں‘ آپ مضطرب کیوں ہیں؟ یہ جواب سن کر وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوگئیں اور بعد میں کہنے لگیں‘ اصل میں پاکستان غلط بنا ہے۔ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کے لوگ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے‘ میں نے انکو آزادی دلوانی ہے۔
پاکستان کی ائرفورس‘ فوج کو میں نے تباہ کرنا ہے۔ دوسرے صدیوں سے جو کہاوت مشہور ہے کہ ایک مسلمان ہزار ہندو پر فاتح ہوتا ہے کی ’’Myth‘‘ کو ختم کرنا ہے۔ کانگریس کا 1947ء کا ریزولیوشن بھی یہی تھا کہ عارضی طور پر پاکستان بننے دیا جائے اور ایسی رکاوٹیں راستے میں ڈالی جائیں کہ بالآخر پاکستان بھارت میں شامل ہوجائے۔ اسکی تکمیل کیلئے پارٹیشن کے وقت قتل و غارت اتنے وسیع پیمانے پر کرائی گئی کہ بھارتیوں کا خیال تھا کہ مہاجروں کا بوجھ پاکستان نہیں اٹھا سکے گا اور پاکستان ناکام ریاست بن جائیگا۔ خزانہ اور اسلحہ بھی پاکستان کے حصے کا نہ دیا گیا لیکن اس وقت کے لیڈر پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ انکی دن رات کی محنت اور بیوروکریسی کی انتھک محنت سے بھارت کی خواہش پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔
اسکے بعد حیدر آباد دکن پر چڑھائی کردی گئی اور غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا۔ پھر جونا گڑھ پر پولیس ایکشن کے بہانے غاصبانہ قبضہ کیا گیا۔ بالآخر کشمیر پر چڑھائی کردی گئی لیکن جن لوگوں کو اب القاعدہ یا طالبان کا نام دیکر امریکہ مار رہا ہے‘ انہی علاقوں کے قبائلی لوگوں کی مدد سے آزاد کشمیر کا علاقہ فتح کیا گیا‘ حالانکہ اس وقت کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے کشمیر پر فوج کشی کرنے سے انکار کردیا تھا یہ بہانہ بناکر کہ وہ سپریم کمانڈ آک لینڈ کے ماتحت ہیں اور برٹش آفیسر Dominion کی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ نہرو کو اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور استصواب کی قرارداد اقوام متحدہ نے پاس کی۔ اگرچہ یہ بھارت کی استدعا پر قرارداد پاس ہوئی تھی لیکن بھارت جوں جوں اپنی گرفت کشمیر پر مضبوط کرتا گیا‘ وہ استصواب سے منکر ہوتا گیا اور یوں کشمیر کا معاملہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔
اسی طرح پانی کا مسئلہ شروع کیا گیا۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بنیک کی اعانت سے ہوا جس میں دریائے سندھ‘ چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے اور دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس بھارت کے حصے میں آئے ۔
لیکن تاریخ گواہ ہے بھارت معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم دریائے چناب اور دریائے جہلم پر بناکر ان دونوں دریائوں کا پانی روک لیا ہے اور ہمارے ایکسپرٹ ظہورالحسن ڈاہرصاحب نے کل ہی اخبارات میں بیان دیا تھا کہ 2012ء تک منگلا ڈیم بالکل خشک ہوجائیگا۔ دریائے سندھ کے آغاز پر بھی ایک ٹنل بنائی جا رہی ہے جس سے دریائے سندھ کا پانی بھی روک لیا جائیگا۔ کونسا موقع ہے جو بھارت پاکستان دشمنی میں حاصل نہیں کررہا۔ پاکستانی لیڈر جو بھارت نوازی کا کہتے ہیں ان سے پوچھیں کہ کیا بھارت کا ٹریک ریکارڈ کبھی ایسا ہوا ہے جس سے ان سے بھلائی کی توقع ہے؟ حالیہ افغانستان کی ٹیرر وار میں جانی و مالی نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔
بھارت نے افغانستان میں 34 چوکیاں جو بنائی ہیں جہاں سے لوگوں کو پیسہ اور ٹریننگ دیکر سوات‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں ہی نہیں بلکہ پشاور‘ لاہور‘ ملتان‘ بلوچستان میں اسلحہ اور پیسہ دیکر بھارتی ایجنٹ بھیجے جا رہے ہیں جو پاکستان کی فوج سے بھی لڑ رہے ہیں اور اب شہروں میں تخریب کاری کیلئے بھیج کر ہر روز تخریب کاری کروائی جا رہی ہے اور اب تک سات ہزار سے زائد لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ (جاری ہے)
اگر 1971ء کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو وہی حالات اب پاکستان میں ہیں۔ ایک طرف انتشار عروج پر ہے دوسری طرف وہی ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ اندرا گاندھی کی طرح بھارت کے موجودہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے پہلے امریکہ کا دورہ کیا ہے جس میں جوائنٹ ڈیکلریشن ہوئی۔ اس میں بھی پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی روکے‘ اور جو بلوچستان میں‘ سرحد میں‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں بھارتی ایجنٹ تباہی پھیلا رہے ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ منموہن سنگھ امریکہ کیساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ حالانکہ بھارت کے ایک نیوکلیئر انجینئر کو قتل کیا گیا‘ یورینیم چوری بھی ہوئی اور حال ہی میں ایٹمی تابکاری بھی ہوئی لیکن بھارت پر کوئی الزام نہیں بلکہ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ایٹمی آلات نیوکلیئر پاور ملکوں سے جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے اور اس سلسلے میں اسکا کینیڈا سے معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ اب منموہن سنگھ نے روس سے بھی ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرلیا ہے اور بھارت یورینیم وہاں سے بھی خریدیگا اور چار ایٹمی ری ایکٹر روس بھارت کو لگا کر دیگا۔ مشرقی پاکستان کے احتجاج کے دوران بھارت نے روس سے دوستی کا جو معاہدہ کیا تھا اس کی وجہ سے روسی ریڈار سسٹم نے پاکستانی ائرفورس کو مفلوج کردیا تھا۔ امریکہ سے پارٹنرشپ کا معاہدہ ہے۔ روس سے نئی دوستی کے معاہدے کی شکل میں ایٹمی معاہدہ کرلیا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ بین الاقوامی فضا 1971ء سے بھی بدتر ہے۔ امریکہ نے 30 ہزار فوج مزید بھیجنے کی اجازت دیدی ہے جو قندھار میں رکھی جائیگی اور بلوچستان پر یلغار کی جائیگی۔