Friday, December 11, 2009

شمالی وزیرستان پر ڈرون حملے میں اہم القاعدہ رہنما ہلاک

شمالی وزیرستان پر ڈرون حملے میں اہم القاعدہ رہنما ہلاک


الصومالی کے تعلقات پاکستان کی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تھے: امریکہ

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان پر کیے گئے ڈرون حملے میں القاعدہ کے ایک اہم رہنما ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک امریکی عہدیدار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ منگل کو کیے گئے ڈرون حملے میں القاعدہ کے اہم رہنما صالح الصومالی ہلاک ہوئے ہیں۔

دیگر امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صالح الصومالی کا شمار القاعدہ کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ الصومالی القاعدہ کی بیرونی تعلقات کی نگرانی کرتے تھے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق انسداد دہست گردی کے اعلیٰ امریکی افسر نے بتایا کہ الصومالی کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ میں حملوں کا منصوبہ تیار کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ الصومالی کے تعلقات پاکستان کی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الصومالی کو القاعدہ کے سینیئر رہنماؤں سے رہنمائی ملتی تھی اور وہ تکمیل کے لیے منصوبہ بندی کرتے تھے۔
الصومالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان سے کے علاوہ مختلف ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کے سربراہ تھے اور ان کے زیر اثر علاقے افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں منگل کو ڈرون طیارے کے میزائل حملوں میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مقامی انتظامیہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ یہ حملہ منگل کی صبح چھ بج کی بیس منٹ پر میران شاہ سے پندرہ کلومیٹر جنوب میں سپلگاہ کے مقام پر ہوا۔
انتظامیہ کے مطابق حملے کا نشانہ ایک کار تھی جس پر دو میزائل داغے گئے۔ حکام کا کہنا تھا کہ اس حملے میں کار مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار تینوں افراد ہلاک ہوگئے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے تینوں افراد طالبان تھے۔
یہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران چوتھا موقع تھا کہ ڈرون طیاروں نے شمالی وزیرستان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ کی بیس تاریخ کو میر علی کے مچی خیل علاقے میں شدت پسندوں کے کمپاؤنڈ کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا تھاجس میں کم از کم آٹھ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ملی تھیں۔
خیال ہے کہ شمالی وزیرستان میں مبینہ امریکی حملے ایسے وقت ہو رہے ہیں جب اس سے متصل جنوبی وزیرستان میں پاکستان فوج نے بیت اللہ گروپ کے طالبان کے خلاف کئی ہفتے سے فوجی کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے اور حکام کے مطابق زیادہ تر علاقے پر فوج کو کنٹرول حاصل ہوگیا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جنوبی وزیرستان سے بڑی تعداد میں طالبان جنگجو شمالی وزیرستان، اورکزئی ایجنسی اور دیگر قبائلی علاقوں کی طرف منتقل ہوچکے ہیں

IS IT WAY TO HAVEN..............??

دہشت گردی کی تیاری کے الزام میں گرفتار تین امریکی


سرگودھا میں پولیس کا چھاپہ
رفتار افراد سے قبضے میں لیے گئے لیپ ٹاپ
صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے گزشتہ دنوں دہشت گردی کی تیاری کے
الزام میں گرفتار تین امریکی، ایک مصری اور ایک پاکستانی نوجوان پولیس رپورٹ کے مطابق افغانستان جانے کی غرض سے پاکستان آئے تھے۔
سرگودھا پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جس کی ایک کاپی بی بی سی کو بھی ملی ہے ان پانچ طلبہ نے جیش محمد اور جماعت الدوعوہ کے مدارس سے اس بابت مدد کے لیے رجوع بھی کیا تھا تاہم انہیں کوئی مثبت جواب وہاں سے نہیں ملا۔ جماعت الدعوہ لاہور نے بھی ان کے بارے میں ضمانتیں نہ ملنے پر ان کی مدد سے انکار کیا تھا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق اس کے بعد یہ غیرملکی طلبہ سرگودھا اپنے دوست عمر فاروق کے پاس آگئے۔ پولیس نے ان افراد سے ان کے لیپ ٹاپس، موبائل، آئی پوڈ اور بیرونی ہارڈ ڈرائیو بھی برآمد کی ہیں۔
ابتدائی پولیس تفتیش کے مطابق ان طلبہ سے سیف اللہ نامی کسی شخص نے انہیں افغانستان لے جانے کے لیے رابطہ کیا تھا۔ اسی مقصد کے لیے وہ پاکستان مختلف دنوں میں آئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ملزمان آپس میں رابطے کے ایک ایک انوکھا طریقہ استعمال کرتے تھے۔ پولیس کے بقول وہ تحقیقاتی اداروں سے بچنے کی خاطر ایک دوسرے سے ای میل کے ذریعے رابطہ نہیں کرتے تھے۔ وہ انٹرنیٹ ای میل اکاؤنٹ سے لاگ ان ہوتے اور اس کے ڈرافٹ فولڈر میں اپنا پیغام محفوظ کرلیتے تھے۔ اسی اکاؤنٹ کو دوسرا آدمی لاگ ان کرتا اور پیغام پڑھ لیتا تھا۔
پولیس کی تفتیش کے مطابق ملزمان تیس نومبر کو کراچی پہنچے اور پھر حیدر آباد سندھ اور لاہور سے ہوتے ہوئے سرگودھا آ گئے جہاں اپنے ایک ساتھی پاکستانی نژاد امریکی شہری عمرفاروق کے گھر قیام پذیر ہوئے
نو دسمبر کو سرگودھا سے گرفتار ہونے والے ان پانچوں افراد کا مذہب سے خاص لگاؤ بتایا جاتا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق یہ کالج طلبہ ’کافروں کے خلاف جہاد’ کے حامی تھے۔ ان میں سے ایک احمد عبداللہ منی باقاعدگی سے انٹرنٹ ویب سائٹ یو ٹیب جایا کرتا تھا۔ وہ مبینہ طور پر امریکی فوجیوں اور تنصیبات پر حملوں کی باقاعدگی سے حمایت کرتا تھا۔
رپورٹ میں ان پانچ افراد کی یہ تفصیل دی گئی ہے۔
نام: وقار حسین خان
والد: ایم سعید خان
تاریخ پیدائش: گیارہ اگست انیس سو ستاسی
جائے پیدائش: ورجینا، امریکہ
آمد پاکستان: یکم دسمبر، دو ہزار نو
نام: احمد عبداللہ منی
والد: نامعلوم
تاریخ پیدائش: چار دسمبر انیس سو نواسی
سرگودھا سے گرفتار افراد سے قبضے میں لیے گئے موبائل فون، آئی پوڈ، ہارڈ ڈسک وغیرہ
آمد پاکستان: تیس نومبر، دو ہزار نو
نام: رامے ایس زمزم
والد: نامعلوم
تاریخ پیدائش: انیس ستمبر، انیس سو ستاسی
جائے پیدائش: مصر
آمد پاکستان: یکم دسمبر، دو ہزار نو
نام: امان حسن یمر
والد: نامعلوم
تاریخ پیدائش: پانچ مئی انیس سو اکانوے
جائے پیدائش: کیلفورنیا، امریکہ
آمد پاکستان: تیس نومبر، دو ہزار نو
نام: عمر فاروق
والد: خالد فاروق
تاریخ پیدائش: انیس سو پچاسی
جائے پیدائش: سرگودھا، پاکستان

حکام کے مطابق یہ وہی نوجوان ہیں جو چند مہینے پہلے امریکی ریاست ورجینیا کے شہر الیگزنڈرا سے غائب ہوگئے تھے۔ امریکی حکام نے بھی سرگودھا میں ان افراد سے پوچھ گچھ کی ہے اور اب غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق انہیں اسلام آباد لایا جا رہا ہے جہاں سے انہیں اگلے چوبیس گھنٹوں میں امریکہ روانہ کئے جانے کا امکان ہے۔ حکام اس بارے میں تاہم کچھ بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ ملزموں نے شدت پسندوں سے اپنا تعلق اس حد تک بنا لیا تھا کہ انھوں نے اپنا ہی ایک گروپ بنا کر خود کو جہاد کے لیے پیش کردیا۔
پولیس کی تفتیش کے مطابق ملزمان تیس نومبر کو کراچی پہنچے اور پھر حیدر آباد سندھ اور لاہور سے ہوتے ہوئے سرگودھا آ گئے جہاں اپنے ایک ساتھی پاکستانی نژاد امریکی شہری عمرفاروق کے گھر قیام پذیر ہوئے۔
پولیس نے عمر فاروق کے والد کو بھی حراست میں لے لیا ہے کیونکہ ان پر شبہہ ہے کہ انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایف بی آئی کو مطلوب ہیں پناہ دی۔
پولیس ان شدت پسندوں تک پہنچنے کی بھی کوشش کر رہی ہے جن سے ان پانچوں امریکیوں کا رابطہ تھا۔ان پانچوں افراد کے خلاف فارنرز ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے اور پاکستان میں پرتشدد کارروائیاں کرنے کے الزامات کے تحت تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

Birthdays Egyptian writer Naguib Mahfouz - Naguib Mahfouz


Birthdays Egyptian writer Naguib Mahfouz - Naguib Mahfouz



One of the greatest writers who have ever been of Arab culture throughout the ages
It was his life Nozja for devotion to writing, creativity and most important is represented by Odipana Naguib Mahfouz
That the author was not only Egypt, but he was polite to all Arabs
Although the pen did not leave Cairo and acolytes
It was able to represent all Arab cities and the lanes, and inhabited by figures
The literature is the best embodiment of the saying of
The local is the way to a global
He was able to highlight the concerns and human suffering
Through a narrow segment of the middle class Egyptian
And put through the hot Egyptian and Arab
All questions concerning the fate of human
Which his family to win the Nobel Prize for Literature in 1988.






Naguib Mahfouz was born in Cairo district aesthetic, in the December 11, 1911
He spent his childhood in the neighborhood aesthetic then went traveling with his family in the prestigious districts in Cairo, Egypt joined the university in 1930 and earned a Bachelor of Arts Department of Philosophy in 1934 Mahfouz began writing philosophical articles in newspapers and shuttling between government jobs, were unhappy about his life this way - It is said that the crisis Mental undergone by Kamal Abdel-Gawad, the protagonist (sugar) is the same crisis that was going through saved at this time.
Naguib Mahfouz tried to write the story and the story received warmly in the popular literary situation in his early forties. Mahfouz later wrote his trilogy Pharaonic (Radubis - futility of predestination - the struggle of good) and it was clear that it acts down on the ground black in this day and age. And then go to write a Mahfouz novel realism He wrote important works such as (beginning and end) (Mirage) (lane Medak), which are pivotal shift in the history of Egyptian literature .. Mahfouz has been submitted in this novel all the hot Egyptian secretes they contain a distinct literary form.
With the beginning of the fifties made Mahfouz Taha Hussein, his teacher, the most important (triple) Taha Hussein has praised the work highly commend. Met with three problems in the beginning especially in the publication of the large size, but later work was published in three parts into three major literary work written in Arabic in the last century. After the Tripartite Action Archive Ksenarist period in Egyptian cinema, co-authored several scenarios of the films made mention them (Ehna students - Al-Nasser Salah al-Din).
In the sixties opened up the headwaters of the genius of Naguib Mahfouz and completed maturity largely wrote the novel realism (such as Thief and the Dogs), and the novel, such as the absurd (Adrift on the Nile), and the stories Sufi (High God), and the novel with a clear religious projections (boys Gabalawy or Children of the Alley) novel which has been criticized harshly by some skeptics.
Naguib Mahfouz proved during his trip that the literary writer is not confined himself within the literary school, he moved from one school to another is smooth and has demonstrated proficiency in all works by .. Not only that, but tried to provide new forms of fiction as he did with (Miramar) or when he wrote the epic special way as he did with (Aharavi).
In 1988, Mahfouz won the Nobel Prize, the most famous international award in the arts, which obtained before and after the greatest writers and philosophers in the last century. In Egypt and the Arab world views differed on the winning Mahfouz Mahfouz Group of joy because he won the first Arab writer to receive this award, and the opening is important for Arab literature in general, and, above all, Mahfouz deserved. and a team win condemned Mahfouz as saying that he does not deserve or peaceful thoughts towards Israel, for example, or for stamping on religion in his novels, as has been said.
On the outside there was a major problem is that everyone interested in literature at the time was unaware of the name preserved completely, but this was in the past but now taller Vmahvoz world literature, and novels written by a lifelong become translated into many languages of the world does not need foreign translators to say : Egyptian writer, just say: Naguib Mahfouz.
Mahfouz died on Wednesday, August 30, 2006.
Perhaps the main reason for a celebration of Arab Bnaguib Mahfouz and his discovery before being discovered by the Nobel Prize years is the passion for Arabic language and the absence of temptation to write in the colloquial language which incites some critics to use.