Tuesday, January 5, 2010

A Fresh Episode of Mere Mutabik 4th Jan 2010 Imran Khan

A Fresh Episode of Mere Mutabik 4th Jan 2010 Imran Khan

Thursday, December 31, 2009

Mager Main Kon Houn Jane ?.


HAPPY NEW YEAR 2010 TO EVERY ONE

HAPPY NEW YEAR 2010 TO EVERY ONE






Wednesday, December 23, 2009

Balloon boy parents get jail time, tough probation

Balloon boy parents get jail time, tough probation

Richard and Mayumi Heene arrive at court for sentencing on Wednesday, Dec. 23, AP – Richard and Mayumi Heene arrive at court for sentencing on Wednesday, Dec. 23, 2009, in Fort Collins, …
    FORT COLLINS, Colo. – The parents who carried out the balloon boy hoax were sentenced to jail Wednesday and given strict probation conditions that forbid them from earning any money from the spectacle for four years.
    Richard Heene was sentenced to 90 days in jail, including 60 days of work release that will let him pursue his job as a construction contractor while serving his time. His wife, Mayumi, was sentenced to 20 days in jail.
    Richard Heene choked back tears as he said he was sorry, especially to the rescue workers who chased down false reports that his 6-year-old son had floated away in a balloon on Oct. 15. It was a stunt designed to generate attention for a reality TV show.
    "I do want to reiterate that I'm very, very sorry. And I want to apologize to all the rescue workers out there, and the people that got involved in the community. That's it," said Richard Heene, whose wife did not speak at the hearing.
    Larimer County District Judge Stephen Schapanski then ordered Heene to begin a 30-day jail term on Jan. 11, delaying the start of the sentence for two weeks so he can spend the holidays with his family. Schapanski allowed Heene to serve the remaining 60 days of his jail term under work release, meaning he can work during the day but spend his nights in jail.
    The Heenes' probation will be revoked if they are found to be profiting from any book, TV, movie or other deals related to the stunt.
    "This, in simple terms, was an elaborate hoax that was devised by Mr. and Mrs. Heene," the judge said.
    The Heenes pleaded guilty to charges that they carried out the balloon hoax, with deals that called for up to 90 days in jail for the husband and 60 days for his wife.
    Schapanski ordered Mayumi Heene to serve 20 days in jail after her husband completes his sentence. Her time served is flexible — she can report to jail on 10 weekends, for example — so the children are cared for, the judge said.
    Prosecutors asked for the maximum sentence for the husband, saying that a message needs to be sent to promoters who attempt to carry out hoaxes to generate publicity. Chief Deputy District Attorney Andrew Lewis also asked for full restitution to reimburse authorities for the cost of investigating the hoax — an amount that could exceed $50,000.
    "People around the world were watching this unfold," he said. "Mr. Heene wasted a lot of manpower and a lot of money in wanting to get himself some publicity."
    He added, "Jay Leno said it best when he said, 'This is copycat game.' And people will copycat this event. (The Heenes) need to go to jail so people don't do that."
    He portrayed the Heenes as growing increasingly desperate as their pitches for a reality TV show kept getting turned down by networks — and the family fell deeper into a financial hole. Lewis said the Heenes set in motion the balloon hoax in early October as a way to jumpstart the effort and get some attention.
    They chose Oct. 15 because the weather was cooperating and the kids were home for school with parent-teacher conferences, allowing the Heenes to report that 6-year-old Falcon had floated away, Lewis said.
    Once the parents were brought in for questioning, Richard Heene feigned sleep during the lie-detector test, claiming it was some sort of diabetic episode, Lewis said.
    David Lane, Richard Heene's attorney, pleaded for leniency with the judge and said that the couple "have learned a lesson they will never forget for the rest of their lives." He also said that if someone has to go to jail, let it be Richard Heene and not his wife.
    "That is his plea. That would be something of a Christmas miracle if that can occur," he said.

Thursday, December 17, 2009

Aaj Kamrah Khan K Sath

Wednesday, December 16, 2009

Kalam-e-Bullahe Shah


Tuesday, December 15, 2009

NRO..................Tomarrow will be better for people of pakistan.



PopupWindow

کیا مائی لارڈ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں گے

کیا مائی لارڈ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں گے

تلخ نوائی ...........................…اظہار الحق
مملکتیں جہاں ادارے بے توقیر ہوں، دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں! ایسی مملکتوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ نہ بین الاقوامی معاہدے، نہ کوئی قوتِ قاہرہ اور نہ مسلح لشکر۔ محفوظ تو کچھوا بھی ہوتا ہے لیکن اسے بچانے والی سخت کھال اتنی بھاری ہوتی ہے کہ وہ خطرے کے وقت بھاگ ہی نہیں سکتا اور وہی ’’بچانے‘‘ والی کھال اسے پکڑوا دیتی ہے! ملکوں کو ادارے بچاتے ہیں اور قوموں کو بین الاقوامی برادری میں عزت اس بنیاد پر ملتی ہے کہ ان قوموں کے ادارے کتنے مضبوط ہیں! اگر ذاتی پسند یا ناپسند اداروں کے انتظام میں دخل اندازی کرے اور سسٹم کوئی نہ ہو تو ادارے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ بات کسی کو پسند آئے یا بُری لگے، بات یہی ہے کہ ادارے تباہ ہو رہے ہوں تو یہ ملک کیلئے بدشگونی ہوتی ہے! کوئی ادارہ شاہ جہان اور اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد تخت نشینی کا فیصلہ کرنے والا ہوتا تو برصغیر کی تاریخ وہ نہ ہوتی جو آج ہے!
پاکستان کے صرف دو ادارے ایسے ہیں جہاں بھرتی کے حوالے سے میرٹ کی حکمرانی ہے! ان میں سے ایک کاکول ہے جہاں بّری فوج کیلئے افسر تیار ہوتے ہیں( معاملے کو آسان رکھنے کیلئے ہم فضائیہ اور بحریہ کی اکیڈیمیوں کا ذکر الگ سے نہیں کر رہے ورنہ ہماری مراد تینوں مسلح افواج سے ہے) ایسی درجنوں اور بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کاکول میں غریب کسانوں، سپاہیوں، حوالداروں، پرائمری سکول کے ٹیچروں اور عام لوگوں کے بچے کامیاب ہوگئے اور جرنیلوں وزیروں سفیروں اور امیروں کے بچے داخل نہ ہوسکے۔ مجھے یاد ہے، میں کاکول میں فائنل پاسنگ آئوٹ پریڈ دیکھنے کیلئے مدعو تھا۔ بڑے گیٹ سے باہر آتے ہوئے میں نے دیکھا…اور یہ منظر میں کبھی بھول نہیں سکتا… کہ تہبند میں ملبوس ایک کسان اپنے کیڈٹ بیٹے سے محوِ گفتگو تھا! کاکول سے نکلنے کے بعد کوئی جرنیل بن جائے اور اٹھائے ہوئے حلف کی دھجیاں اُڑا کر فرعون ہو جائے تو یہ بعد کا معاملہ ہے اور اس میں کاکول کا کوئی قصور نہیں!
پسرِ نُوح با بدان بنشت
خاندانِ بنوتش…گم شد
اس میں نوح علیہ السلام کا تو کوئی قصور نہیں تھا!
اب سوال یہ ہے کہ کاکول کا معیار کس طرح برقرار رکھا جا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے مسلح افواج کے اندرونی معاملات میں اہل سیاست کا عمل دخل نہیں ہے اور جو درگت سول سروس آف پاکستان کی اقربا پروری، دوست نوازی اور میرٹ کو قتل کرنے کی وجہ سے بنی ہے، الحمد للہ افواج پاکستان ابھی تک اس سے بچی ہوئی ہیں۔ وہ جو بّری فضائی اور بحری افواج کیلئے افسروں کو منتخب کرتے ہیں، انہیں تربیت دیتے ہیں، انہیں سزا دیتے ہیں، نکال باہر کرتے ہیں یا کامیاب قرار دیتے ہیں، انہیں ایک نظام کے تحت اس اہم ذمہ داری کیلئے چُنا جاتاہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے اور اس عمل میں اہلیت کا…بالعموم…قتل نہیں ہوتا!
دوسرا ادارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہے جو ہر سال مقابلے کا امتحان منعقد کرتا ہے اور اگلے 35 سال کیلئے فارن سروس، ضلعی انتظامیہ، پولیس، آڈیٹرجنرل، انکم ٹیکس اور دیگر محکموں کیلئے افسر بھرتی کرتا ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں کیلئے مقابلے کے امتحان منعقد کرنے کے علاوہ بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کئی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے، مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں کیلئے اساتذہ کا انتخاب کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کو ملازمتیں دیتا ہے اور سائنس دان بھرتی کرتا ہے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی تین سالوں میں ایک مستحسن فیصلہ کیا تھا کہ گریڈ 16 سے نیچے کی بھرتیاں بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کریگا۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جس نے سفارش کی بنیاد پر بھرتی کو ختم کردیا تھا لیکن ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو انہوں نے کمیشن سے یہ ذمہ داری واپس لے لی تاکہ سیاست دان بھرتیوں پر حسبِ سابق اثرانداز ہوتے رہیں… پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے زمانے میں وزیراعظم کا دفتر مختلف محکموںکو فہرستیں فراہم کرتا رہا۔ ان فہرستوں میں ’’خوش قسمت‘‘ امیدواروں کے نام ہوتے تھے!
بہرحال…فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا کمال یہ ہے کہ عام لوگوں کے بچے مقابلے کا امتحان پاس کرکے کامیاب ہو جاتے تھے۔ آخر الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب، سرتاج عزیز، آغا شاہی، عزیز احمد اور بے شمار دوسرے بیوروکریٹ… جنہوں نے اپنی ذہانت اور محنت سے ملک کی خدمت کی، عام خاندانوں ہی سے تو تھے اور یہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہی تھا جس نے میر ٹ اور اہلیت کی بنیاد پر انہیں چُنا تھا اور چُن کر حکومت کے سپرد کیا تھا۔ اب کچھ افسر اگر آغا شاہی اور سرتاج عزیز بننے کے بجائے کروڑ پتی بن گئے، کسی نے چودہ بنگلے بنا لئے، کسی نے (64) چونسٹھ پلاٹ ہتھیا لیے اور کوئی نیویارک میں جائیداد کا مالک بن بیٹھا تو اس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا قصور تھا نہ مقابلے کے امتحان کا!
سوال یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر کس بنیاد پر منتخب ہو رہے ہیں؟ بدقسمتی سے یہ ادارہ ذاتی پسند اور ناپسند کا شکار ہو رہا ہے۔ ایک پرائمری سکول چلانے کیلئے استاد کا انتخاب اور ڈاکخانہ چلانے کیلئے بابو کا انتخاب تو کسی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن جو ادارہ 35 سال کیلئے سرکاری افسروں کو چنتا ہے اس ادارے کے ممبر کسی بنیاد کے بغیر چُنے جارہے ہیں۔
جناب چیف جسٹس کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ معاملہ حد درجہ اہم ہے۔ یہ گڈ گورننس کا معاملہ ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے‘ اگر حکومت پاکستان فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ریٹائر افسرکو مقرر کرکے لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ دیتی ہے تو یہ تنخواہ قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ کس کو رکھا جا رہا ہے اور کس بنیاد پر؟ یہ بات کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ اپنی مرضی کے آدمی کا نام تجویز کرکے ایوان صدر کو بھیجیں، نہ آئین میں لکھی ہوئی ہے اور نہ کسی اور قانون میں۔گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازم فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر نہیں بنائے گئے، کس بنیاد پر نامنظور ہوئے؟ کیا ان کا حق نہیں کہ انکے ناموں پر بھی غور ہوتا اور انہیں نامنظور ہونے کی وجہ بتائی جاتی؟
اسی طرح فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل ایک اہم قومی ادارہ ہے۔ سرکاری ملازم حکومت کیخلاف یہاں مقدمے دائر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی تلافی کی درخواست کرتے ہیں۔ فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل کے ار کان کس بنیاد پر متعین اور منتخب ہو رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کویکسر نظرانداز کرکے گریڈ انیس بلکہ بیس کے ریٹائرڈ ملازموں کو ممبر لگایاجارہا ہے؟ خدا جانے یہ خبر غلط ہے یا صحیح لیکن سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ ممبر اتنے ’لائق‘‘ ہیں کہ فیصلے لکھنے کیلئے انہوں نے ’’ملازم‘‘ رکھے ہوئے ہیں! ہوسکتا ہے یہ غلط ہولیکن اصل سوال یہ ہے کہ ممبر متعین کرنے کا معیار کیا ہے؟
مائی لاڈ جناب واجب الاحترام چیف جسٹس! یہ ایک حساس معاملہ ہے۔یہ قومی اداروں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اس میں قومی خزانے کی خطیر رقم کا سوال ہے جو ہر ماہ ان ممبران کو تنخواہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ملازموں کی فہرست سے کچھ کو چُن لینا اور کچھ کو نظرانداز کرنا، قومی مفاد کے خلاف ہے۔ مائی لارڈ! کیا جناب والا حکومت کو ہدایت دیں گے کہ وہ اس کی وجوہ سے جناب والا کو اور پوری قوم کو آگاہ کرے؟ کیا مائی لارڈ اس حساس قومی معاملے کی خرابی کا ازخود نوٹس لیں گے؟

’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘

’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘ …

 
سردار محمد اسلم سکھیرا .....
پاکستان اس وقت بیرونی و اندرونی سازشوں سے ہمکنار ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے سابقہ تاریخ کا مطالعہ کرنا اہم ہے۔ 1971ء میں جو حالات تھے اور اس وقت جو حالات ہیں ان کا موازنہ اگر کیا جائے تو ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت کوئی قومی سطح کا لیڈر پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ سیاسی فضا بالکل وہی ہے جو 1971ء میں تھی۔
مغربی پاکستان میں اکثریت پی پی پی کی تھی لیکن ممتاز دولتانہ کی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی اکثریت تھی اور مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ ممتاز دولتانہ کیساتھ الحاق کرنا چاہتا تھا۔ سیاستدانوں کا 1971ء میں کیا رویہ تھا‘ اس کا سردار شوکت حیات کی تصنیف ’’The Nation that lost its soul‘‘ میں تفصیل سے ذکر ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے لیڈر گئے اور مجیب الرحمان سے ملاقات کی تو اس وقت مجیب الرحمان کے اردگرد تاج الدین اور بھارتی ایجنٹوں کی گرفت تھی۔ مجیب الرحمان بہانے کرکے انکو اِدھر اُدھر کرکے اکیلا مغربی پاکستان کے لیڈروں سے معاملہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن بھٹو اور یحییٰ خان تیار نہ تھے۔ جب ایجی ٹیشن عروج پر پہنچی تو مجیب الرحمان بھارتی ایجنٹوں کا قیدی تھا اور اسے آزادی نہ تھی کہ وہ مغربی لیڈر سے کوئی بات کرسکے۔
جی ڈبلیو چودھری کی کتاب ’’Last days of United Pakistan‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کو متحدہ پاکستان سے الگ کرنے میں سیاستدانوں نے کیا رول ادا کیا۔ اسکی دوسری کتاب ’’Major Powers and Pakistan‘‘ میں بیرونی طاقتوں کے رول کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ہنری کسنجر نے اپنی تصنیف ’’The White House Years‘‘ میں ’’Chapter XXI‘‘ میں ’’The Tilt, The India Pakistan crises of 1971‘‘ (Page 842 to 918) میں تفصیل سے اندرونی و بیرونی حالات کا تجزیہ کیا ہے‘ میں نے درجنوں کتابیں اس موضوع پر پڑھی ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر تجزیہ ہنری کسنجر کا ہے۔ میں اس وقت کے حکمرانوں‘ دانشوروں اور پالیسی ساز شخصیات سے گزارش کرونگا کہ بھارت اور امریکہ کے لیڈروں کی ذہنیت پرکھنے کیلئے اسکا مطالعہ ضرور کریں۔ ہنری کسنجر لکھتا ہے کہ بھارت کی شروع سے ہی نیت ٹھیک نہیں تھی‘ جو بھی امریکہ کے صدر یحییٰ سے رعایت دلوا کر کوئی صلح کی بات کا ماحول تیار کرتے تھے‘ بھارت اس میں ڈنڈی مارتا تھا۔ جب احتجاج عروج پر تھا‘ تب بھارت کیلئے ماحول سازگار ہورہا تھا۔ اندرا گاندھی نے پوری دنیا کا دورہ کیا اور پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے پاکستان کو ظالم قرار دلوانے کیلئے ہرممکن کوشش کی۔
پاکستانی فوج کی من گھڑت کہانیوں کی تشہیر کی گئی۔ مکتی باہنی کو ٹریننگ بھارت میں دی گئی۔ اسلحہ‘ مالی امداد سے ایک غیرقانونی فورس تیار کی گئی جس کی مدد بھارتی فوج کررہی تھی۔ پروپیگنڈہ مشینری نے جب دنیا میں کامیابی حاصل کرلی تو اندرا گاندھی نے یہ جاننے کیلئے کہ اگر بھارتی فوج اعلانیہ مشرقی پاکستان پر حملہ کردے تو امریکہ کا رویہ کیا ہوگا؟ اس نظریہ کے تحت اندرا گاندھی نے امریکہ کا دورہ کیا۔
امریکی صدر نکسن سے جب ملاقات ہوئی تو نکسن نے اندرا گاندھی سے کہا کہ یحییٰ خان نے ڈیکلیئر کردیا ہے کہ دسمبر میں عام معافی بنگالیوں کو یحییٰ خان نے دیدی ہے‘ جو بھارت میں بنگالی آئے ہوئے ہیں وہ واپس مشرقی پاکستان جاسکتے ہیں اور مجیب الرحمان نے مارچ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اپنے مقاصد حاصل کرنیوالی ہیں‘ آپ مضطرب کیوں ہیں؟ یہ جواب سن کر وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوگئیں اور بعد میں کہنے لگیں‘ اصل میں پاکستان غلط بنا ہے۔ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کے لوگ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے‘ میں نے انکو آزادی دلوانی ہے۔
پاکستان کی ائرفورس‘ فوج کو میں نے تباہ کرنا ہے۔ دوسرے صدیوں سے جو کہاوت مشہور ہے کہ ایک مسلمان ہزار ہندو پر فاتح ہوتا ہے کی ’’Myth‘‘ کو ختم کرنا ہے۔ کانگریس کا 1947ء کا ریزولیوشن بھی یہی تھا کہ عارضی طور پر پاکستان بننے دیا جائے اور ایسی رکاوٹیں راستے میں ڈالی جائیں کہ بالآخر پاکستان بھارت میں شامل ہوجائے۔ اسکی تکمیل کیلئے پارٹیشن کے وقت قتل و غارت اتنے وسیع پیمانے پر کرائی گئی کہ بھارتیوں کا خیال تھا کہ مہاجروں کا بوجھ پاکستان نہیں اٹھا سکے گا اور پاکستان ناکام ریاست بن جائیگا۔ خزانہ اور اسلحہ بھی پاکستان کے حصے کا نہ دیا گیا لیکن اس وقت کے لیڈر پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ انکی دن رات کی محنت اور بیوروکریسی کی انتھک محنت سے بھارت کی خواہش پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔
اسکے بعد حیدر آباد دکن پر چڑھائی کردی گئی اور غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا۔ پھر جونا گڑھ پر پولیس ایکشن کے بہانے غاصبانہ قبضہ کیا گیا۔ بالآخر کشمیر پر چڑھائی کردی گئی لیکن جن لوگوں کو اب القاعدہ یا طالبان کا نام دیکر امریکہ مار رہا ہے‘ انہی علاقوں کے قبائلی لوگوں کی مدد سے آزاد کشمیر کا علاقہ فتح کیا گیا‘ حالانکہ اس وقت کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے کشمیر پر فوج کشی کرنے سے انکار کردیا تھا یہ بہانہ بناکر کہ وہ سپریم کمانڈ آک لینڈ کے ماتحت ہیں اور برٹش آفیسر Dominion کی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ نہرو کو اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور استصواب کی قرارداد اقوام متحدہ نے پاس کی۔ اگرچہ یہ بھارت کی استدعا پر قرارداد پاس ہوئی تھی لیکن بھارت جوں جوں اپنی گرفت کشمیر پر مضبوط کرتا گیا‘ وہ استصواب سے منکر ہوتا گیا اور یوں کشمیر کا معاملہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔
اسی طرح پانی کا مسئلہ شروع کیا گیا۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بنیک کی اعانت سے ہوا جس میں دریائے سندھ‘ چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے اور دریائے راوی‘ ستلج اور بیاس بھارت کے حصے میں آئے ۔
لیکن تاریخ گواہ ہے بھارت معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم دریائے چناب اور دریائے جہلم پر بناکر ان دونوں دریائوں کا پانی روک لیا ہے اور ہمارے ایکسپرٹ ظہورالحسن ڈاہرصاحب نے کل ہی اخبارات میں بیان دیا تھا کہ 2012ء تک منگلا ڈیم بالکل خشک ہوجائیگا۔ دریائے سندھ کے آغاز پر بھی ایک ٹنل بنائی جا رہی ہے جس سے دریائے سندھ کا پانی بھی روک لیا جائیگا۔ کونسا موقع ہے جو بھارت پاکستان دشمنی میں حاصل نہیں کررہا۔ پاکستانی لیڈر جو بھارت نوازی کا کہتے ہیں ان سے پوچھیں کہ کیا بھارت کا ٹریک ریکارڈ کبھی ایسا ہوا ہے جس سے ان سے بھلائی کی توقع ہے؟ حالیہ افغانستان کی ٹیرر وار میں جانی و مالی نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔
بھارت نے افغانستان میں 34 چوکیاں جو بنائی ہیں جہاں سے لوگوں کو پیسہ اور ٹریننگ دیکر سوات‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں ہی نہیں بلکہ پشاور‘ لاہور‘ ملتان‘ بلوچستان میں اسلحہ اور پیسہ دیکر بھارتی ایجنٹ بھیجے جا رہے ہیں جو پاکستان کی فوج سے بھی لڑ رہے ہیں اور اب شہروں میں تخریب کاری کیلئے بھیج کر ہر روز تخریب کاری کروائی جا رہی ہے اور اب تک سات ہزار سے زائد لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ (جاری ہے)
اگر 1971ء کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو وہی حالات اب پاکستان میں ہیں۔ ایک طرف انتشار عروج پر ہے دوسری طرف وہی ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ اندرا گاندھی کی طرح بھارت کے موجودہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے پہلے امریکہ کا دورہ کیا ہے جس میں جوائنٹ ڈیکلریشن ہوئی۔ اس میں بھی پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی روکے‘ اور جو بلوچستان میں‘ سرحد میں‘ شمالی و جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں بھارتی ایجنٹ تباہی پھیلا رہے ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ منموہن سنگھ امریکہ کیساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ حالانکہ بھارت کے ایک نیوکلیئر انجینئر کو قتل کیا گیا‘ یورینیم چوری بھی ہوئی اور حال ہی میں ایٹمی تابکاری بھی ہوئی لیکن بھارت پر کوئی الزام نہیں بلکہ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ایٹمی آلات نیوکلیئر پاور ملکوں سے جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے اور اس سلسلے میں اسکا کینیڈا سے معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ اب منموہن سنگھ نے روس سے بھی ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرلیا ہے اور بھارت یورینیم وہاں سے بھی خریدیگا اور چار ایٹمی ری ایکٹر روس بھارت کو لگا کر دیگا۔ مشرقی پاکستان کے احتجاج کے دوران بھارت نے روس سے دوستی کا جو معاہدہ کیا تھا اس کی وجہ سے روسی ریڈار سسٹم نے پاکستانی ائرفورس کو مفلوج کردیا تھا۔ امریکہ سے پارٹنرشپ کا معاہدہ ہے۔ روس سے نئی دوستی کے معاہدے کی شکل میں ایٹمی معاہدہ کرلیا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ بین الاقوامی فضا 1971ء سے بھی بدتر ہے۔ امریکہ نے 30 ہزار فوج مزید بھیجنے کی اجازت دیدی ہے جو قندھار میں رکھی جائیگی اور بلوچستان پر یلغار کی جائیگی۔

Sunday, December 13, 2009

वेल्ल बा Ba

WELLA BA BA..........
When a person get old in Europe they send him to old hous and we Asian people always propagate it negatively. In Asia when a person get old we don't send him to old house and keep him at home every body knows he is a free man now and will not do any work at home but his wife and daughter in law how use him like donkey?. Just hear this funny poem of such a retired free man and you gill get the truth.